بعد مدت کے وہ آئے ہیں نظر شام کے بعد
کوئی پوچھے کہ وہ جاتے ہیں کدھر شام کے بعد
وعدہ کر کے وہ نہ آئے تو ہمیں فکر ہوئی
جانے کس حال میں وہ ہوں گے کدھر شام کے بعد
ہے نیا شہر نئے لوگ کوئی دیکھ تو لے
بھولے بھٹکے وہ کہیں جائیں نہ ڈر شام کے بعد
راہ تکتے ہوئے روتے ہیں تِری چاہت میں
گھر کے آنگن میں کھڑے بوڑھے شجر شام کے بعد
چین مل جاتا سکوں دل کو میسر ہوتا
کاش مل جاتی تِری کوئی خبر شام کے بعد
جانے والے تِری باتوں پہ بھروسہ کر کے
ایسے ٹوٹے کہ گئے آج بکھر شام کے بعد
دیکھ کے ان کو سبھی زخم بھلا کر ہم نے
شازیہ ڈالی محبت کی نظر شام کے بعد
شازیہ طارق
No comments:
Post a Comment