پیلے پتے
گاؤں کا اک کچا سا گھر
گھر کے صحن میں بیری کا اک پیڑ
پیڑ پہ بولتے طوطے
اور ایک مانوس سی آواز؛
آؤ نا؛ دیکھو کتنے بیر چُنے ہیں میں نے
سرخ دوپٹہ گلے میں اس کے
کچے پکے ادھ کھائے مٹھی بھر بیر
مجھ کو دیتے ہوئے
وہ طوطوں سے بھی زیادہ چہک رہی تھی
اور اکثر مجھ سے کہتی تھی؛
تم جب بھی یہ بیری اور چہکتے طوطے دیکھو گے
دیکھنا تم کو یاد آؤں گی
اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا
ایسا ہی ہوتا ہے
میں جب گاؤں جاتا ہوں
دیکھتا ہوں بیری کا پیڑ اب پکے گھر کی زینت بنا ہوا
طوطوں کا چہکنا نوحے جیسا لگتا ہے
بیری کا ایک ایک پتا سوگ میں گُم
ایسے میں اچانک کہیں سے وہ آ جاتی ہے
میں بے ساختہ ہاتھ آگے کر دیتا ہوں
وہ یہ کہتے ہوئے غائب ہو جاتی ہے؛
اب میں بیر نہیں چُنتی
میں پیلے پتے چُنتی ہوں
مسرت عباس ندرالوی
No comments:
Post a Comment