بخشش کے واسطے کئی آسانیاں بھی ہیں
رحمت بھی ہے ہماری پشیمانیاں بھی ہیں
ویسے تو زندگی میں پریشانیاں بھی ہیں
ماں کی دُعا ہو ساتھ تو آسانیاں بھی ہیں
آنچل ہے رُخ پہ پھر بھی ہیں نظریں جُھکی ہوئی
یعنی حیا میں ان کی پشیمانیاں بھی ہیں
غم دو حروف کا ہے، مگر مختصر نہیں
اس میں کہانیوں کی سی طُولانیاں بھی ہیں
گُل بننے کو اُتارتی ہے پیرہن کلی
دوشیزگی کی آڑ میں عُریانیاں بھی ہیں
قیمت تو اتنی ہے کہ چُکائی نہ جا سکے
بازار میں ہو حُسن تو ارزانیاں بھی ہیں
دانائی دُشمنوں کی ہے اپنی جگہ عدیل
بربادیوں میں دوست کی نادانیاں بھی ہیں
نظیر علی عدیل
No comments:
Post a Comment