Tuesday, 27 June 2023

مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

 مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے، اور نہ دعا یاد رہے

تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد رہے

نہ خدائی کی ہو پرواہ نہ خدا یاد رہے

لوٹتے سیکڑوں نخچیر ہیں کیا یاد رہے

چیر دو سینے میں دل کو کہ پتا یاد رہے

رات کا وعدہ ہے بندے سے اگر بندہ نواز

بند میں دے لو گِرہ تا کہ ذرا یاد رہے

قاصدِ عاشق سودا زدہ کیا لائے جواب

جب نہ معلوم ہو گھر اور نہ پتا یاد رہے

دیکھ بھی لینا ہمیں راہ میں اور کیوں صاحب

ہم سے منہ پھیر کے جانا یہ بھلا یاد رہے

تیرے مدہوش سے کیا ہوش و خِرد کی ہو امید

رات کا بھی نہ جسے کھایا ہوا یاد رہے

کشتۂ ناز کی گردن پہ چھری پھیرو جب

کاش اس وقت تمہیں نامِ خدا یاد رہے

گور تک آئے تو چھاتی پہ قدم بھی رکھ دو

کوئی بیدل ادھر آئے تو پتا یاد رہے

خاک برباد نہ کرنا مِری اس کوچے میں

تجھ سے کہہ دیتا ہوں میں بادِ صبا یاد رہے

تیرا عاشق نہ ہو آسودہ بہ زیر طوبیٰ

خُلد میں بھی تِرے کوچے کی ہوا یاد رہے

باز آ جائیں جفا سے جو کبھی آپ تو پھر

یاد عاشق کو نہ کیجے گا بھلا یاد رہے

داغ دل پر مِرے پھاہا نہیں ہے انگارا

چارہ گر لیجو نہ چُٹکی سے اٹھا یاد رہے

زخم دل بولے مِرے دل کے نمک خواروں سے

لو بھلا کچھ تو محبت کا مزا یاد رہے

حضرتِ عشق کے مکتب میں ہے تعلیم کچھ اور

یاں لکھا یاد رہے، اور نہ پڑھا یاد رہے

گر حقیقت میں ہے رہنا تو نہ رکھ خود بینی

بھولے بندہ جو خودی کو تو خدا یاد رہے

عالمِ حسن خدائی ہے بتوں کی اے ذوق

چل کے بتخانے میں بیٹھو کہ خدا یاد رہے


شیخ ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment