اس نے پوچھا ہے
٭
میری ایک نظم پڑھ کے
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
یہ نظم آپ نے کب لکھی ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاؤں
شاعر کبھی زمان و مکان کے دائرے میں
مقید نہیں ہوتا کرتے ہیں
شاعر اپنے تخیل میں جیتے ہیں
شاعر اپنے شعور کی رو میں بہتے ہیں
شاعر میں زمانہ اور زمانے میں شاعر جیا کرتے ہیں
وہ کب ہنستے ہوئے روتے ہیں
وہ کب روتے ہوئے ہنستے ہیں
وہ جس پر مرتے ہیں
وہ اسی کو دیکھ کے جیتے ہیں
٭٭
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
یہ نظم آپ نے کب لکھی ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاؤں
وہ تو نظم ہی ہے
جو اُن کے بطن سے ،آبشارِ ذہن سے
دل کے نہاں خانوں سے
کبھی بارش کی طرح
رم جھم رم جھم برستی ہے
کبھی بجلی کی طرح رہ رہ کے چمکتی ہے
کبھی جھرنوں کی طرح قل قل چھل چھل
کبھی ندی کی طرح آہستگی سے
ڈھلانوں میں اترتی ہے
کبھی گل اندام معشوق کی طرح سبک روی سے چلتی ہے
کبھی شوخ و چنچل حسینہ کی طرح
دامن کشاں کشاں گل کترتی ہے
خامہ شاعر تو محض اِک وسیلہ ہے
نظم کسی وحی کی طرح
پیرہن بدل بدل کے صفحہ قرطاس پر اترتی ہے
٭٭٭
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاو ں
شاعر اپنی عمر طبعی سے پرے ہوا کرتے ہیں
فکشن نگارپر شاعر کو اسی لیے
فوقیت ہے کہ وہ ناقد کی منطق سے نہیں
بلکہ اپنی منطق سے لکھا کرتے ہیں
یہی سبب ہے کہ زبانِ خلق
اکثر یہ کہا کرتی ہے
فنونِ لطیفہ کی سر تاج ہے نظم
آورد کی نہیں، آمد کی معراج ہے نظم
شاعر نفوس کے اذہان میں نہیں
ان کے دل کی دھڑکنوں میں جیا کرتے ہیں
شاعر اپنی عمر طبعی سے پرے ہوا کرتے ہیں
میرے ایک دوست نے پوچھا ہے
اب میں اسے یہ کیسے سمجھاؤں
پرویز شہریار
No comments:
Post a Comment