Monday, 19 June 2023

دوستو میں آپ کے سامنے موت کا اعلان کرتا ہوں

 شکست نامے پر حاشیے

دوستو میں آپ کے سامنے 

قدیم زبان کی موت کا اعلان کرتا ہوں 

اور قدیم کتابوں کی موت کا 

آپ کے سامنے موت کا اعلان کرتا ہوں

بوسیدہ جوتوں کی مانند اپنے چِھدے ہوئے کلام کی موت 

بے توقیر، ہجو اور ذلت آمیز لفظوں کی موت کا 

آپ کے سامنے موت کا اعلان کرتا ہوں

اس سوچ کے انجام کا جس نے ہزیمت کی راہ دکھائی

ہمارے دہن تلخ و تُرش نظموں سے بھرے ہوئے ہیں 

عورتوں کی زلفیں تلخ و تُرش ہو گئی ہیں 

راتیں، پردے اور نشت گاہیں

تمام چیزیں ہمارے سامنے تلخ و تُرش ہو گئی ہیں 

اے میرے دکھیارے وطن 

اک آن میں تُو نے مجھے بدل ڈالا 

آرزوؤں اور محبتوں کے شاعر سے 

ایک ایسے شاعر میں جو (اب) خنجر سے لفظ پرو رہا ہے 

اس لیے ہمارا احساس ہمارے الفاظ سے بڑھا ہوا ہے 

اپنے اشعار پر شرمندہ ہوئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں 

اگر ہم جنگ ہار گئے تو تعجب کیسا؟

ہم اس میں داخل ہوئے تھے 

اُس خطابت سے لیس ہو کر 

جو مشرق کا کُل اثاثہ ہے 

عنتریات سے لیس ہو کر 

جس نے ایک مکھی بھی نہ ماری 

ہم اس میں داخل ہوئے تھے 

طبلے اور رباب کی منطق سے لیس ہو کر 

ہمارے اس المیے میں یہ راز چھپا ہے

کہ ہماری چیخ پکار

ہماری آرزوؤں سے ضخیم تر ہے 

اور ہماری شمشیر ہماری قامت سے طویل تر 

اس قضیے کا خلاصہ 

ایک جملے میں مختصراً یہ ہے 

کہ ہم نے تہذیب کہ کُلاہ پہن رکھی ہے

اور ہماری روح (وہی) جاہلیت والی ہے 

بانسری اور سارنگی سے 

کامیابی و کامرانی حاصل نہیں ہوا کرتی 

(جنگ کی) عدم تیاری نے ہمارے پاس لا ڈالے ہیں 

پچاس ہزار نئے خیمے

آسمان پر لعنت مت بھیجو 

اگر اس نے تمہیں چھوڑ دیا ہے 

حالات پر لعنت مت بھیجو 

اللہ جسے چاہتا ہے فتح سے ہمکنار کرتا ہے 

وہ تمہارے لیے تلوار ڈھالنے والا کوئی لوہار تو نہیں 

میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ 

میں صبح سویرے یہ خبریں سنوں 

میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ 

میں بھونکتے ہوئے کتوں کو سنوں

یہودی ہماری سرحدوں میں داخل نہیں ہوئے

سچ تو یہ ہے کہ وہ 

ہماری خامیوں میں چیونٹیوں کی طرح سرایت کر گئے ہیں

پانچ ہزار سال (ہو گئے)

ہم ہیں کہ تہہ خانے میں (چھپے) ہیں 

ہماری ٹھوڑیاں لمبی لمبی ہیں 

ہماری نقدی کا کچھ پتہ نہیں 

ہماری آنکھیں مکھیوں کے ڈیرے ہیں 

اے مرے دوستو

کوشش کر کے دروازوں کو توڑ ڈالو

اپنے افکار کو غسل دو 

اپنے لباس کو غسل دو 

اے مِرے دوستو

کوشش کر کے کوئی کتاب پڑھو

کوئی کتاب لکھو 

حرفوں، اناروں اور انگوروں کی کاشت کرو 

کُہر اور برف والے ملکوں کی طرف بحری سفر کرو 

اس تہہ خانے سے باہر لوگ تمہیں جانتے تک نہیں 

لوگ تمہیں بھیڑیوں کی نسل سے گمان کرتے ہیں 

ہماری جلدیں احساس سے عاری ہیں 

ہمری روحیں افلاس کا شکوہ کرتی ہیں

ہمارے شب و روز ٹونے ٹوٹکوں

شطرنج اور خوابیدگی کے گرد گھومتے ہیں 

کیا ہم بہترین امت ہیں

جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا تھا؟

صحراؤں میں پھوٹتے ہمارے تیل کے لیے ممکن تھا 

کہ وہ خنجر کا روپ دھار لیتا

آگ اور شعلے والا (خنجر)

لیکن وہ (تیل)

وائے افسوس اشرفِ قریش (کی موجودہ نسل) پر 

اور افسوس قبیلۂ اوس و نزار کے احرار (کی موجودہ نسل) پر 

(وہ تیل) کنیزوں کے پیروں تلے بہایا جاتا رہا 

ہم گلیوں میں سرپٹ دوڑتے ہیں 

اپنی بغلوں میں رسیاں دابے ہوئے 

بے بصیرت ہو کر ہم مشقِ ستم کرتے ہیں 

شیشوں اور قفلوں کو توڑتے ہیں 

مینڈکوں کی طرح مدح کرتے ہیں 

مینڈکوں کی طرح سونگھتے ہیں 

اپنے بونوں کو سُورما بنا دیتے ہیں 

اپنے اشراف کو نکمّا بنا دیتے ہیں 

بے سوچے سمجھے سُورمائی دکھاتے ہیں 

جامع مسجدوں میں بیٹھتے ہیں 

دبک کر، ڈھیلے ڈھالے ہو کر 

ہم شاعری فرماتے ہیں 

ضرب الامثال بناتے ہیں 

اپنے دشمنوں کے خلاف نصرت چاہتے ہیں 

اللہ تعالیٰ کی جانب سے

اگر کوئی مجھے امان دے سکتا 

اگر میں سلطان کے مقابل موجود ہو سکتا

تو میں اس سے کہتا

اے مِرے آقا، سلطان

آپ کے خونخوار کتوں نے میری چادر پھاڑ دی ہے 

آپ کے مخبر ہمیشہ میرے پیچھے ہیں

سن کی آنکھیں میرے پیچھے ہیں 

ان کی ناکیں میرے پیچھے ہیں 

ان کے قدم میرے پیچھے ہیں 

تقدیر مبرم کی مانند، قضا کی مانند 

وہ میری بیوی کے متعلق پوچھتے ہیں 

اپنے پاس لکھ لیتے ہیں 

مِرے دوستوں کے نام 

جنابِ سلطان

میں آپ کی بہری دیواروں کے قریب آیا تھا 

کیونکہ میں نے

میں نے کوشش کی تھی کہ اپنا رنج و الم آشکار کروں

مجھے بوٹوں سے مارا گیا

آپ کے سپاہیوں نے مجھے مجبور کیا 

کہ میں اپنے جوتوں کو کھاؤں

اے مِرے آقا

اے مِرے آقا، سلطان

آپ نے دو بار جنگ ہاری ہے 

کیونکہ ہمسری قوم کے نصف لوگ 

بے زبان ہیں 

اس قوم کی کیا قیمت ہو گی جو بے زبان ہو؟

ہماری قوم کے آدھے لوگ 

چیونٹیوں اور چوہوں کی طرح 

دیواروں کے اندر محصور ہیں 

اگر کوئی مجھے امان دے سکتا 

سلطان کی فوج سے 

تو میں اس سے کہتا؛

آپ نے دو بار جنگ ہاری ہے 

کیونکہ آپ انسانی مسائل سے الگ تھلگ ہو گئے تھے

اگر ہم اتحاد مٹی میں دفن نہ کرتے 

اگر ہم اس کے نرم جسم کو نیزوں سے نہ بھنبھوڑتے 

اگر وہ ہماری آنکھوں اور پلکوں میں ٹھہر جاتا

تو ہمارا گوشت کتوں کے لیے حلال نہ ہوتا

ہمیں ایک غصبناک نسل چاہیے

ہمیں ایک ایسی نسل چاہیے جو آفاق کو جوتے 

تاریخ کو اسکی جڑوں سے ہلا مارے

ہماری سوچ کو گہرائیوں سے ہلا مارے

ہمیں پیش قدمی کرنے والی نسل چاہیے

مختلف خصوصیات والی

نہ خطاؤں کو بخشے

نہ چشم پوشی کرے

نہ جُھکے نہ نفاق سے واقف ہو

ہمیں ایک نسل چاہیے 

قیادت کرنے والی

دیو قامت نسل

اے بچو

بحرِ اوقیانوس سے خلیج تک 

تم امیدوں کی سُنبل ہو 

تم ہی وہ نسل ہو

جو طوقِ (غلامی) توڑے گی 

ہمارے سروں میں بھری افیون کس خاتمہ کرے گی

خام خیالوں کا خاتمہ کرے گی 

اے بچو 

تم طیّب ہو

طاہر ہو

شبنم اور برف کی مانند طاہر

اے بچو

تم ہماری ہاری ہوئی نسل کے بارے مت پڑھو

ہم تو نا امید اور مایوس لوگ ہیں

ہم، تربوز کے چھلکے کی طرح ناکارہ ہیں

ہم بوسیدہ ہیں 

چپلوں کی طرح بوسیدہ

ہمارے بارے میں مت پڑھو 

ہمارے نشانات کے پیچھے مت چلو

ہمارے افکار قبول مت کرو

ہم متلی، آتشک اور کھانسی والی نسل ہیں

ہم فریبی نسل سے ہیں، رسیوں پر ناچنے والی نسل

اے بچو 

اے بہار کی برسات 

اے امیدوں کی سُنبلو 

تم ہماری بانجھ زندگی میں زرخیز بیج ہو

تم ہی وہ نسل ہو 

جو شکست کو ہرا دے گی 


شاعری: نزار قبانی

کتاب: شاعری کی راہ سے 

اردو ترجمہ: ابو عمش

No comments:

Post a Comment