Monday, 19 June 2023

کہنے کو عام رسم شکایات ہو گئی

 کہنے کو عام رسمِ شکایات ہو گئی

لب تک نہ آئی بات مگر بات ہو گئی

ہنس ہنس کے پی لیے غمِ دوراں کے تلخ جام

یوں سازگار گردشِ حالات ہو گئی

زنداں کی شب نظر کے اجالے خیال دوست

یکجا ہوئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

محویتِ حکایتِ دوراں نہ پوچھیے

کب دن ہوا خبر نہیں کب رات ہو گئی

جو آسماں نشیں ہیں انہیں اس کا علم ہے

جب بھی زمیں پر آئے انہیں مات ہو گئی

گلشن قفس، بہار گریباں، جنوں خِرد

مربوط ان سے بزمِ خرابات ہو گئی

صہبا! اثر نگاہ کی اللہ رے کشمکش

نیندوں میں کیف و کم کی شروعات ہو گئی


صہبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment