رات محفل میں زرا سا بھی مجھے ہوش نہ تھا
اور بجز اُس کے مِرا کوئی گُنہ پوش نہ تھا
بحرِ احسان و کرم میں تِرے، کب جوش نہ تھا
کوئی مجھ سا مگر احسان فراموش نہ تھا
عشق اُس وقت بھی گویا ہی تھا، خاموش نہ تھا
عقل کو ہوش نہ تھا، دل میں زرا جوش نہ تھا
اس کی ہر بات خود ہی دل میں اتر جاتی تھی
سرِ محفل با خدا میں ہمہ تن گوش نہ تھا
پیشِ حاکم تو سبھی قُفل بہ لب تھے، لیکن
جب وہ رخصت ہوا، اک شخص بھی خاموش نہ تھا
حشر میں سب نے پہن رکھا تھا ملبوسِ سپید
غم سبھی کو تھا مگر کوئی سیہ پوش نہ تھا
کیسے تقدیر بدل جاتی مِری بستی کی
کون بستی میں تھا ایسا کہ جو کم کوش نہ تھا
زعم تھا کس کی حمایت کا مِرے قاتل کو؟
شہر بھر میں نظر آتا تھا، وہ روپوش نہ تھا
ہے یہ واعظ کا اثر، یا مِرے ساقی کا کمال؟
ایک بھی صف میں کہیں پر، کوئی مئے نوش نہ تھا
چھوڑ کر آ گیا میں، رن سے عدو کو زندہ
کیوں کہ میں تیغ بکف تھا، وہ زرہ پوش نہ تھا
تِری زلفوں کو، میں نازوں سے سنبھالے رکھتا
میں تِرا "دوش" نہیں تھا، یہ مِرا "دوش"نہ تھا
دوشِ ہستی کو کیا، بارِ اجل نے ہلکا
زیست کے بوجھ سے یاں کوئی سبکدوش نہ تھا
کیوں ترے شہر کے گن گاؤں، میں کیا تارڑ ہوں
اور ترا شہر، کوئی رشکِ "حراموش" نہ تھا
ایک ایسا بھی سفر مجھ کو تھا درپیش وسیم
دوشِ یاراں پہ تھا، لیکن کوئی ہمدوش نہ تھا
وسیم عباس حیدری
No comments:
Post a Comment