ستاروں پلکوں پہ معمول سے سجانے لگا
خدا کا شکر، میرا دل کسی بہانے لگا
میں گھر گیا تو مجھے خامشی گلے سے ملی
اور آئینہ تو بس اک جشن سا منانے لگا
یہ حوصلہ ہی مِری جیت تھا کہ تھکنے پر
میں اپنا سر تو کبھی پاؤں خود دبانے لگا
تُو کیسے آیا ہے، کس نے تجھے اجازت دی
میں دوستی کا تماشا نہیں لگانے لگا
میرے تو آنسو بھی بازار میں نہیں بکتے
تمہیں گماں ہے کہ میں بے بہا کمانے لگا
کہانی یونہی طوالت پکڑتی جاتی ہے
مجھے گلے سے لگا کر اسے ٹھکانے لگا
ندیم اجمل عدیم
No comments:
Post a Comment