نظر کی روح کی دل کی صعوبتیں بھی گئیں
گیا شباب تو وہ ساری الجھنیں بھی گئیں
گئی جوانی تو آئی شعور کی دولت
قدم قدم پہ زمانے سے رنجشیں بھی گئیں
شبِ وصال کا ارماں نہ فکرِ شامِ الم
وہ کاروبارِ جنوں کی نوازشیں بھی گئیں
سفید بال ہوئے تانک جھانک میں حائل
کہاں کا شوقِ نظارہ، بصارتیں بھی گئیں
جنونِ عشق بھی رخصت ہوا شباب کے ساتھ
وہ رت جگوں کی پرانی روایتیں بھی گئیں
گناہِ حشر میں ٹھہری گناہ کی حسرت
گناہ بھی نہ کیے اور جنتیں بھی گئیں
خیالِ گیسوئے جاناں سفید ریش میں گُم
وہ چشم و لب کے تصور کی لذتیں بھی گئیں
بُتوں کی چاہ نے کافر بنا دیا تھا ہمیں
خدا کا شکر ہے فرحت وہ عادتیں بھی گئیں
خلیل فرحت کارنجوی
No comments:
Post a Comment