Friday, 16 June 2023

نظر کی روح کی دل کی صعوبتیں بھی گئیں

نظر کی روح کی دل کی صعوبتیں بھی گئیں 

گیا شباب تو وہ ساری الجھنیں بھی گئیں 

گئی جوانی تو آئی شعور کی دولت 

قدم قدم پہ زمانے سے رنجشیں بھی گئیں 

شبِ وصال کا ارماں نہ فکرِ شامِ الم 

وہ کاروبارِ جنوں کی نوازشیں بھی گئیں 

سفید بال ہوئے تانک جھانک میں حائل 

کہاں کا شوقِ نظارہ، بصارتیں بھی گئیں 

جنونِ عشق بھی رخصت ہوا شباب کے ساتھ 

وہ رت جگوں کی پرانی روایتیں بھی گئیں 

گناہِ حشر میں ٹھہری گناہ کی حسرت 

گناہ بھی نہ کیے اور جنتیں بھی گئیں 

خیال‌ِ گیسوئے جاناں سفید ریش میں گُم 

وہ چشم و لب کے تصور کی لذتیں بھی گئیں 

بُتوں کی چاہ نے کافر بنا دیا تھا ہمیں 

خدا کا شکر ہے فرحت وہ عادتیں بھی گئیں 


خلیل فرحت کارنجوی 

No comments:

Post a Comment