Friday 16 June 2023

گزری ہوئی وہ رت کبھی آنی تو ہے نہیں

 گزری ہوئی وہ رُت کبھی آنی تو ہے نہیں

دل نے مگر یہ بات بھی مانی تو ہے نہیں

اے قصہ گو! یہ لہجہ تِرا یوں کبھی نہ تھا

کچھ تو بتا؟ یہ کیا ہے، کہانی تو ہے نہیں

کچھ اس کے مسکرانے سے اندازہ ہو تو ہو

اندر کی چوٹ ہے، نظر آنی تو ہے نہیں

پھر اس گلی نہ جانے پہ راضی ہوا تو ہے

اب کے بھی دل نے بات نِبھانی تو ہے نہیں

وہ بات اب کہاں؟ کہ دلوں کو کرے غلام

بس اک چمک ہے آنکھ میں پانی تو ہے نہیں

دنیا! تِرے لیے جو گزاری گزار دی

اب یہ جو رہ گئی ہے گنوانی تو ہے نہیں


خالد محمود ذکی

No comments:

Post a Comment