بھولی بسری آنکهوں کو
جب اس میں تُو اُمید دیکھے
تِری انگ انگ میں درد اُٹھے
تُو آ کر ان پر وار کرے
وه آنکھیں جب اس وار کو سمجھیں
تب تُو اپنا کام تمام کرے
نا تُو بوڑھا اور جواں دیکھے
نا تُو بچہ اور ناتواں دیکھے
تِری وحشت کے آگے سب بونے ہیں
سب چھوٹے ہیں، سب ناٹے ہیں
تُو دیو کی مانند دیو ہیکل
تُو نس نس میں دھنستا جاتا ہے
تُو لوگوں کے سکوں نچوڑ کے
تُو پھلتا ہے، تُو پھولتا ہے
تُو ان کی رگ رگ میں جا کر
اپنا بسیرا کرتا ہے
تُو اُمید کے دریا کے اندر
تُو بُوند بُوند پی جاتا ہے
تُو زندگی کی دیواروں کو
دِیمک کی طرح
چاٹ جاتا ہے
اے کاش! تجھ کو بھی دِیمک چاٹے
تُو بھی تڑپے، تُو بھی سِسکے
تُو بھی چیخے، تُو بھی چِلائے
تِرا رونگ رونگ انگاره ہو
تِرے انگ انگ میں درد بھرے
لوگوں کو آگ میں دھونس کر
تُو خود بھی نرکھ میں جل جائے
تیرے اہل بھی تجھ کو دیکھ کے تڑپے
جب تُو آخری اسٹیج پہ آئے
تِری ہڈیوں تک سیلن لگے
تُو اپنے وجود میں
خود دھنس کے گِر جائے
تجھے درد میں ایسا درد لگے
تُو مرنے کی دُعا کرے
تِری درد بھری چیخیں جب
اُفق کے آخر کو چُھو جائیں
تب تجھ کو معلوم لگے
تِری اذیت کیا اذیت ہے
تُو کہے سب لوگوں کو
اے کینسر! تجھے کینسر لگ جائے
ناز بارکزئی
No comments:
Post a Comment