دنیائے رنگ و بُو سے کنارہ نہیں کیا
اچھا کیا جو ہم نے دکھاوا نہیں کیا
ہم جسم کو بچا نہ سکے گرد سے مگر
یہ تو کیا کہ رُوح کو میلا نہیں کیا
اوروں پر اپنی ذات کی ترجیح تو بجا
ہم نے کچھ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا
چُپ چاپ باہر آ گئے رسہ کشی سے ہم
ظاہر کسی پہ اپنا ارادہ نہیں کیا
بس ڈُوبتے اُبھرتے رہے ہیں تمام عمر
ہم نے عبور کرب کا دریا نہیں کیا
کچھ دُھوپ اس کو چیر کے ہم تک پہنچ گئی
کچھ ہم پر اس درخت نے سایہ نہیں کیا
بیتاب جانکار سبھی کرتبوں کے تھے
کچھ بات تھی جو ہم نے تماشا نہیں کیا
پرتپال سنگھ بیتاب
No comments:
Post a Comment