ترک ان دنوں جو یار سے گّفت و شّنید ہے
ہم کو محرّم، اور رقیبوں کو عید ہے
شاید ہمارے قول پہ حبل الورید ہے
ہم سے خدا قریب ہے کعبہ بعید ہے
گُزرا مہِ صیام نہ کیوں پنجۂ شراب
خالی کا چاند یہ نہیں ہے، ماہِ عید ہے
شغل اپنا بادہ خواری ہے اور تاک سلسلہ
پیرِ مغاں بھی ایک ہمارا مرید ہے
دل لے چکے ہیں جان بھی اب مانگتے ہیں وہ
بیٹھے ہیں بگڑے اور تقاضہ شدید ہے
چل کھول قُفل آبلۂ پا کے اے جنوں
ہر اک زبان خار بیاباں کلید ہے
وحشت میں پیرہن کی اڑیں دھجیاں تمام
تن پر قبائے داغ ہے سو نو خرید ہے
سُنتا ہوں روز حشر نہ ہو گی اسے نجات
جو سیدوں سے بغض رکھے وہ یزید ہے
ایسا مزا بھرا ہے طبیعت میں فقر کا
گُنج شکر ہے سینہ مِرا دل فرید ہے
سیاح بے نوا ہوں جہاں گرد ہے لقب
گردش میں چرخ پیر بھی میرا مرید ہے
میانداد خاں سیاح
میاں داد خاں سیاح
No comments:
Post a Comment