راز کہتے ہیں اگر پھر نہ بدنام کیجیۓ
عشق تماشہ ہے تو سرِ عام کیجیۓ
عشق سچا بھی اور ملن کی دعا بھی
جائیے صاحب آپ اور کوئی کام کیجیۓ
اپنے آپ سے نہیں ملا ہوں کئی دن سے
ہو سکے تو ملاقات کا انتظام کیجیۓ
یوں چبا چبا کر نہ ادا کیجیۓ حضور
گِلہ مجھ سے ہے لفظوں کا احترام کیجیۓ
آپ نے پوچھا ہے خودکشی کا حلال طریقہ
صاحب دل کسی بے وفا کے نام کیجیۓ
ایک سانس کے محتاج پر سجتا نہیں غرور
خاک ہیں تو خاک بن کر کلام کیجیۓ
سچ مُفت میں بھی لیتا نہیں یہاں کوئی
جُھوٹ بولیۓ اور کھرے دام کیجیۓ
عرق اور غرق میں ہے نقطے کا فرق
دعا سے کام چلائیے غصہ حرام کیجیۓ
اس سے پہلے ہو جائیں بے نور آنکھیں
چلے آئیے رنگین کوئی شام کیجیۓ
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment