Tuesday, 20 June 2023

جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

 جس کی طلب میں عمر کا سودا نہیں ہوا

اس خواب کا سراب بھی اپنا نہیں ہوا

اپنی صلیب سر پہ لیے چل رہے ہیں لوگ

شہرِ سزا میں کوئی کسی کا نہیں ہوا

کہنے کو جی سنبھل تو گیا ہے مگر کہیں

اک درد ہے کہ جس کا مداوا نہیں ہوا

اس نے مِرے بغیر گزاری ہے زندگی

اس آگہی کا زہر گوارا نہیں ہوا

اب بھی ہے معتبر تو خدا کی عطا ہے یہ

ورنہ، وفا کے نام پہ کیا کیا نہیں ہوا

اے حرفِ باریاب تِری خیر پر وہ لوگ

جن پر درِ قبول کبھی وا نہیں ہوا


ناہید قمر

No comments:

Post a Comment