میں بھی خاموش اجالوں کی ضیا ہوں جیسے
اپنی دھرتی پہ خدا! تیرا پتا ہوں جیسے
اس کی آنکھوں میں قیامت کی حیا روشن ہے
نِیم خوابیدہ اسے سوچ رہا ہوں جیسے
میرا مسکن نہ ٹھکانہ نہ کوئی راہگزر
میں کوئی سر پھری آوارہ ہوا ہوں جیسے
میرا در چھوڑ کے جاتی ہی نہیں ہے کم بخت
تیری رُسوائی کو اک میں ہی ملا ہوں جیسے
زندگی تُو بھی تو مجھ سے کبھی کُھل کر نہ ملی
اجنبی تیرے لیے میں بھی رہا ہوں جیسے
خود سے مل کر مجھے شدت سے لگا ہے منصور
اب تلک مُردہ ضمیروں میں رہا ہوں جیسے
منصور اعجاز
No comments:
Post a Comment