عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شہیدانِؑ وفا کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں
حسینؑ ابنِ علیؑ کی داستانِ غم سناتے ہیں
دھواں جنگل میں پھیلا ہے لگی ہے آگ خیموں میں
یہ ہیں اوراقِ قرآں اشقیاء جن کو جلاتے ہیں
بپا ہے دو جہاں میں آج بھی شبیرؑ کا ماتم
سُنا ہے لوگ پردیسی کو اکثر بھول جاتے ہیں
بہتّر کے لہو سے صبحِ آزادی ہوئی روشن
سحر ہونے سے پہلے چاند تارے ڈوب جاتے ہیں
علی اصغرؑ نے ثابت کر دیا تیرِ ستم کھا کر
اجل کے سامنے یوں مردِ میداں مسکراتے ہیں
نہ جانے مادرِ اصغرؑ کے دل پر کیا گزرتی ہے
زباں خاموش ہے آنکھوں میں آنسو آئے جاتے ہیں
اٹھا تھا جن کی مادرؑ کا جنازہ پردۂ شب میں
امیرِ شام کے دربار میں بلوائے جاتے ہیں
پیمبرؐ کا جنازہ ہے نظر کے سامنے اختر
اٹھا کر لاشِ ہمشکلِ نبیؐ شبیرؑ لاتے ہیں
اختر چنیوٹی
اختیار حسین
No comments:
Post a Comment