مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے
دادِ سرکشی لے لی ہم نے کج کلاہوں سے
کیا کہیں محبت کا راز کم نگاہوں سے
ہم نے دل بنائے ہیں آنسوؤں سے آہوں سے
اپنی معرفت کا ہم ایک دن سبق دیں گے
دیکھتے چلے جاؤ اجنبی نگاہوں سے
اس کے حق کا مجرم ہوں پھر بھی اس کی رحمت ہے
خود بچا لیا مجھ کو مبتذل گناہوں سے
فرش پر ہے تخت ان کا عرش پر دماغ اپنا
کیا فقیر رہتے ہیں دب کے بادشاہوں سے
سارے مسئلے حل ہیں مسلکِ محبت میں
ان کی راہ ملتی ہے بے شمار راہوں سے
نجم یہ نشانی ہے اہلِ دل کی دنیا میں
ہم کو خاص نِسبت ہے غم کی بارگاہوں سے
نجم آفندی
میرزا تجمل حسین
No comments:
Post a Comment