چاہا نہیں تھا جن کو وہی بے طلب ملے
"ملنا تھا جن سے وہ نہ ملے اور سب ملے"
رت جب جواں تھی زیست کی وہ ہم سے کب ملے
پت جھڑ کے موسموں میں مِرے یار اب ملے
جو ہر جگہ ہو اس کے لیے جستجو ہی کیا
دَیر و حرم میں شیخ! کہاں تجھ کو رب ملے؟
شیخِ حرم کو اس کے تقدس سے کیا غرض
بس اس کو تاج و تخت و زمامِ عرب ملے
کل شب کو عشقِ تاج کی معراج ہو گئی
خوابوں میں جانِ جاں کے لبوں سے یہ لب ملے
عبدالخالق تاج
No comments:
Post a Comment