یونہی دل بے تاب کوئی رات مچل جائے
اور اس پہ میرا زعم کہ تُو ساتھ مچل جائے
وہ دن بھی دکھائیں گے زمانے کے حوادث
بجلی کی چمک دیکھ کے برسات مچل جائے
دنیا میں کہاں کون بھلا میرے سوا ہے
جو کھا کے محبت میں بڑی گھات مچل جائے
ایک اس کا خِرد بزمِ طرب میں بھی فسردہ
ایک میرا جنوں جو بھی ہوں حالات مچل جائے
اس آس پر پھر ساری سنی ہم نے کہانی
ایک حرفِ وفا بعدِ شکایات مچل جائے
جب تجھ سے چمکتے ہیں فلک پر مہ و انجم
پھر کیوں نہ کوئی زیرِ سموات مچل جائے
اشعار میں ڈھل جائے اگر تیرا سراپا
رنگینئ و حُسنِ گُل باغات مچل جائے
ہے دل کو یقیں دل پہ ستم ڈھا کے ستمگر
دیکھے کبھی خود آ کے نشانات مچل جائے
دل ہی نہ رہا اب مِرے پہلو وہ دانش
جو تجھ سے صنم وقت ملاقات مچل جائے
احسان علی دانش
No comments:
Post a Comment