Sunday 18 June 2023

بہر پرواز اگر اپنی خوشی سے اڑتے

 بہرِ پرواز اگر اپنی خوشی سے اُڑتے

ہم بھی شہباز ہیں ہم بھی بہت اونچے اڑتے

ایک صحرا ہے کہ بُجھتی ہی نہیں پیاس اس کی

مُدتیں گزریں سمندر کے کنارے اڑتے

فتح کے جشن پہ چھوڑے تھے جو ہم نے یارو

آسمانوں میں کہاں تک وہ غُبارے اڑتے

شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہے شاید

ہم نے دیکھے ہیں گلی کوچوں میں سائے اڑتے

قید و بند اپنی جگہ، دانہ و دام اپنی جگہ

وہ جو اُڑنا ہی نہیں جانتے کیسے اڑتے

ہم اسی شوقِ نظارہ میں ہوئے آوارہ

کسی کھڑکی کسی دروازے کے پردے اڑتے

سرد مہری سے تِری سرد ہوا میرا بدن

ورنہ ہم زخم سے کچھ خون کے چھینٹے اڑتے

کھینچ لیتا جو کوئی خون سے تصویرِ بہار

رنگ و بُو اڑتے چمن سے نہ پرندے اڑتے

فرش کی حد سے ہواؤں نے تجاوز نہ کیا

عرش تک ورنہ مِری خاک کے ذرے اڑتے


رشک خلیلی

No comments:

Post a Comment