عدل کا دن ہے، جزا موجود ہے
جرم کا بدلہ، سزا موجود ہے
حاملینِ خصلتِ فرعون لوگ
کیسے سمجھیں گے خدا موجود ہے
رِندگانِ شہر یک جا ہیں یہاں
رِیت اب بھی دلنوا موجود ہے
چاند پر کس کے اشارے کے سبب
نور کا اک خط کھنچا موجود ہے
ہر پریشانی کا حل موجود ہے
جب تلک دستِ دعا موجود ہے
عصمت و عفت کی ضامن ہے سدا
سر پہ تیرے جو رِدا موجود ہے
میری نظروں میں قلندر ہیں وہی
جن کی نظروں میں حیا موجود ہے
روشنی سے اس لیے منسوب ہوں
دل میں الفت کا دِیا موجود ہے
دیکھتی ہے میرے ہر اک فعل کو
اِک نِگہ جو ہر جگہ موجود ہے
آنکھ سے میری وہ اوجھل ہے مگر
عکس اس کا جا بجا موجود ہے
درد کی دولت سے دل معمور ہے
دست عرفاں میں سخا موجود ہے
عرفان اللہ
No comments:
Post a Comment