Saturday, 17 June 2023

ہم تری بزم سے بازار میں جب لائے گئے

 ہم تِری بزم سے بازار میں جب لائے گئے

دور تک ساتھ لِپٹے ہوئے کچھ سائے گئے

ہائے، یہ شوق کہ ہر لب پہ تھا پیغامِ سفر

وائے، یہ وہم کہ ہر گام پہ ٹھہرائے گئے

گرچہ ہر بزم میں اک قصہ تِرا چلتا تھا

پھر بھی کچھ قصّے کسی طرح نہ دُہرائے گئے

روز، ہم اک نئے احساس کی تصویر بنے

روز، ہم اک نئی دیوار میں چُنوائے گئے

جس جگہ کھوئے ہیں اپنوں کی تمنّا میں ہم

وہیں غیروں کی روایات میں ہم پائے گئے

کیا وفا کر کے ہوئے سب کی نظر میں مجرم

ایک عرصہ تِرے کوچے میں نہ ہم آئے گئے

ہر قدم حلقۂ صد دام چمن تھا باقی

ہار زنجیر کی صورت کبھی پہنائے گئے


باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment