Sunday 18 June 2023

چراغ زیست ہے بجھنے کو ہائے نا کیجئے

 چراغِ زیست ہے بجھنے کو ہائے نا کیجیۓ

قضا کی سیج پہ اب اور نا خطا کیجیۓ

نہ کارِ خیر کِیا جس نے زندگی میں کوئی

وہ کہہ رہا ہے بخشش کی اب دُعا کیجیۓ

لِکھے کو گر نہ بدل پاؤ زورِ بازو سے

لِکھے ہوئے پہ ہی پھر آپ اکتفا کیجیۓ

بدی کے ساتھ ملے گی وہیں بھلائی بھی

ذرا خیال سے ان میں سے اک چُنا کیجیۓ

یہ دل ہے کہنے کو اپنا مگر نہیں اپنا

سُنے نہ بات ہماری تو ہائے کیا کیجیۓ

وہ جس کے ہجر میں صحرا نورد خود کو کیا

وہ کہہ رہا ہے تجویز اب سزا کیجیۓ

ہوا کے دوش پہ ہر روز بھیجتا ہوں پیام

لگا کے کان اسے بھی کبھی سنا کیجیۓ

ہمارے دُکھ کا مداوا ہے آپ کی اک دِید

کبھی کبھار سہی آپ بس ملا کیجیۓ

تِرے بغیر جو گزری وہ زندگی کب تھی

حیاتِ نو ہی بدلے میں اب عطا کیجیۓ

مِرے جنوں نے دھاری سراب کی صورت

میں کون ہوں، کیا ہوں، اتا پتا کیجیۓ؟

ہمارے دل میں بستا ہے رب بھی تیرے سوا

خدارا! توڑنے کی اس کو نا خطا کیجیۓ

لگائی آگ ہو گھر میں سہیل! اپنوں نے

بُجھانے آئیں وہی ہائے پھر تو کیا کیجیۓ

خدایا! بخش دے کوتائیاں سہیل کی اب

نظرِ کرم کی ہم پر بھی تو عطا کیجیۓ


خرم سہیل

No comments:

Post a Comment