پھر نوید آج ہمیں کوئی سنائی نہ گئی
پھر سرِ عرش غریبوں کی دھائی نہ گئی
سر کٹایا گیا،۔ توقیر گھٹائی نہ گئی
نیزۂ عشق پہ عاشق کی بڑائی نہ گئی
شہر والوں کی زباں بن کے وہ جو گویا تھا
اس کے حق میں کوئی آواز اٹھائی نہ گئی
ہم کو سائے کی طلب، اُن کو خزانے کی ہوس
وہ جو دیوار گِرائی تھی، بنائی نہ گئی
سر کبھی، خون کبھی مانگ لیا حاکم نے
تخت و منصب پہ رہا، خُوئے گدائی نہ گئی
اک مصوّر نے یہ کہہ کہہ کے قلم توڑ دیا
ایک تصویر بنانی تھی،۔ بنائی نہ گئی
میں شہیدِ رہِ اُلفت تھا، کوئی عام نہ تھا
کوئی چادر مِرے مرقد پہ چڑھائی نہ گئی
"پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق"
اک نظر دہر میں تحریر دکھائی نہ گئی
دوست اس قدر تھے مصروف جہاں داری میں
فصلِ گُل میں بھی کوئی بزم سجائی نہ گئی
بات روکی تھی جہاں مصلحتاً ہم نے وسیم
اُس سے آگے کبھی وہ بات بڑھائی نہ گئی
وسیم عباس حیدری
No comments:
Post a Comment