Sunday, 18 June 2023

صفت کرتے ہو میری اور مرا ہی نام لیتے ہو

 صفت کرتے ہو میری اور مرا ہی نام لیتے ہو

تجاہل عارفانہ سے عجب تم کام لیتے ہو

کھڑا ہوں میں جو قدموں پر تو یہ تیری عنایت ہے

کبھی جو گرنے لگتا ہوں، مجھے تم تھام لیتے ہو

جہانِ حرص میں تجھ سی سخاوت ہو تو بتلاؤ

بَھلا دیتے ہو دُوجوں کو مگر خود خام لیتے ہو

ہمیشہ گُل فشانی ہی لبوں سے تیرے ہوتی ہے

مگر بدلے میں اکثر تم فقط دُشنام لیتے ہو

محبت کے خسارے میں تھا کچھ کردار میرا بھی

مگر تم ہو کہ سر اپنے سبھی الزام لیتے ہو

نہیں کچھ پاس پھر بھی تم ہو کتنے مطمئن دائم

مجھے دے دو یہ درویشی، بتا کیا دام لیتے ہو؟


ندیم دائم

No comments:

Post a Comment