صفت کرتے ہو میری اور مرا ہی نام لیتے ہو
تجاہل عارفانہ سے عجب تم کام لیتے ہو
کھڑا ہوں میں جو قدموں پر تو یہ تیری عنایت ہے
کبھی جو گرنے لگتا ہوں، مجھے تم تھام لیتے ہو
جہانِ حرص میں تجھ سی سخاوت ہو تو بتلاؤ
بَھلا دیتے ہو دُوجوں کو مگر خود خام لیتے ہو
ہمیشہ گُل فشانی ہی لبوں سے تیرے ہوتی ہے
مگر بدلے میں اکثر تم فقط دُشنام لیتے ہو
محبت کے خسارے میں تھا کچھ کردار میرا بھی
مگر تم ہو کہ سر اپنے سبھی الزام لیتے ہو
نہیں کچھ پاس پھر بھی تم ہو کتنے مطمئن دائم
مجھے دے دو یہ درویشی، بتا کیا دام لیتے ہو؟
ندیم دائم
No comments:
Post a Comment