اک سراپا بسا ہے سراب جیسا
شگفتہ چہرہ ہے وہ گلاب جیسا
برسوں تلاش کِیا میں نے اسے
رنگوں میں ملبوس وہ خواب جیسا
سرور بن کر چھا گیا وہ
ڈھونڈے سے نہ ملے جناب جیسا
حاوی ہے سوچوں پر اس قدر
نشہ بن کر اُترا شراب جیسا
برسوں تلاش کیا میں نے اسے
اِک سراپا بسا ہے سراب جیسا
یقینِ محکم کہ ملن ہے ممکن
ذہن میں ابھی تک سراب جیسا
علی، محبت و عشق ہے ہی مہکنا
خوشبو سے معطر وہ گلاب جیسا
محمد علی پاشا
No comments:
Post a Comment