سوچنا مجھ کو مسکرا دینا
نام لکھنا مِرا، مٹا دینا
زخم بھرنے لگے ہیں ماضی کے
اب کوئی درد دیرپا دینا
کھولنا جب کتاب ماضی کی
پُھول سُوکھے ہوئے گِرا دینا
اب کے شاید وہ لوٹ ہی آئے
جانے والے کو پھر صدا دینا
غم کی تنہا اُداس راتیں ہیں
اپنی یادوں کا آسرا دینا
تیرے دامن تلک نہ آ جائے
آتشِ غم کو نہ ہوا دینا
ہم کہ بابر ادھورا قصہ ہیں
گر ہو ممکن، ہمیں بُھلا دینا
بابر شکیل ہاشمی
No comments:
Post a Comment