عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اہلِ طائف نے اگرچہ انہیں مارے پتھر
مانگی آقاﷺ نے دعا چھاتی پہ رکھے پتھر
مکہ والوں نے کہا ان کو امین و صادقﷺ
ان کے اخلاق کی تاثیر سے پگھلے پتھر
ان کی گویائی کا اک ادنٰی سا اعجاز ہے یہ
اذن آقاﷺ نے دیا، ہاتھ میں بولے پتھر
حجرِ اسود نے لیے دستِ کرم کے بوسے
اس لیے چومتے ہیں چُومنے والے پتھر
کتنا مشکل ہے مدینے سے پلٹ کر آنا
واپسی کے لیے بن جاتے ہیں رستے پتھر
ان کی سیرت کو جو کردار میں ڈھالا جاتا
آج ہم پر نہ ہر اک سمت سے پڑتے پتھر
عصرِ عاشور جھکے سجدے میں جب ابنؑ علیؑ
تیر آئے کہیں سے، اور کہیں سے پتھر
لوگو! یہ رحمت عالمﷺ کی دعا ہے، ورنہ
ہم پہ دن رات سماوات سے گرتے پتھر
بول اٹھتے ہیں محمدﷺ کی گواہی کے لیے
ان کے دربار میں کب رہتے ہیں گونگے پتھر
اپنی امت سے تھی اس درجہ محبت ان کو
اپنی امت کے لیے شاہﷺ نے ڈھوئے پتھر
یا نبیﷺ اپنے مدینے میں بلا لیں مجھ کو
توڑ ڈالیں نہ کہیں دل کے یہ شیشے پتھر
آج تک بھی وہ مِری سانس میں اٹکے ہوئے ہیں
تھے مدینے سے جُدائی کے وہ لمحے پتھر
عشقِ احمدﷺ کا اُجالا جو نہ ہوتا مظہر
عین ممکن ہے کہ دل ہوتے ہمارے پتھر
مظہر حسین مظہر
No comments:
Post a Comment