جہاں دریچہ نہ کوئی در ہے
وہی تو انساں کا اصل گھر ہے
اسے عمل سے بناؤ گلشن
حیات کانٹوں کی رہگزر ہے
نہیں ہے پہلو میں اب جو موجود
یہ دل ابھی تو اِدھر اُدھر ہے
جو موم کرتا ہے سنگ دل کو
تمہاری باتوں میں وہ اثر ہے
بہا رہا ہے وہ اشک شاید
نقاب چہرے پہ تر بتر ہے
مِری حقیقت نہ کوئی سمجھے
کہ جھوٹ تیرا جو معتبر ہے
تمہیں محبت ہے جتنی ہم سے
ہمیں بھی تم سے اسی قدر ہے
عبث ہے سب گفتگو تمہاری
کہ جس کا پاؤں نہ کوئی سر ہے
زاہد خرازی
No comments:
Post a Comment