Tuesday, 20 June 2023

جہاں دریچہ نہ کوئی در ہے

 جہاں دریچہ نہ کوئی در ہے

وہی تو انساں کا اصل گھر ہے

اسے عمل سے بناؤ گلشن

حیات کانٹوں کی رہگزر ہے

نہیں ہے پہلو میں اب جو موجود

یہ دل ابھی تو اِدھر اُدھر ہے

جو موم کرتا ہے سنگ دل کو

تمہاری باتوں میں وہ اثر ہے

بہا رہا ہے وہ اشک شاید

نقاب چہرے پہ تر بتر ہے

مِری حقیقت نہ کوئی سمجھے

کہ جھوٹ تیرا جو معتبر ہے

تمہیں محبت ہے جتنی ہم سے

ہمیں بھی تم سے اسی قدر ہے

عبث ہے سب گفتگو تمہاری

کہ جس کا پاؤں نہ کوئی سر ہے


زاہد خرازی

No comments:

Post a Comment