بُجھارت
یہ میرے دل کی پگڈنڈی پہ چلتی نظم ہے کوئی
کہ سیل وقت کی بھٹکی ہوئی اک لہر سا لمحہ
جو آنچل پر ستارے اور ان آنکھوں میں آنسو ٹانک دیتا ہے
ستاروں کی چمک
اور آنسوؤں کی جھلملاہٹ میں
کسی احساس گم گشتہ سے لکھا باب ہے شاید
کوئی سیلاب ہے شاید
یا اک بے نام سی رسم تعلق کا تراشا خواب ہے شاید
جو آنکھوں میں اترتے ہی
کبھی چپ کی سرنگ اور
برف سانسوں کی لڑی میں جھولتا ہے
اور کبھی بہتا ہے سچ بن کر
لہو کی ہر روانی میں
نظر سے جھانکتی اک عمر جیسی رائیگانی میں مگر
دل کی تہوں میں اک خلش سی کسمساتی
اور کہتی ہے یہ سچ کیسا ہے کہ
جلتے ہوئے دل کو گماں تک بھی جو چھاؤں کا نہ دے پائے
یہ کیسا سچ ہے
جس کی تھام کر انگلی کوئی رستوں میں کھو جائے
ناہید قمر
No comments:
Post a Comment