Friday, 16 June 2023

ایک مکار کو دوسرے مکار سے خطرہ ہے

 ایک مکار کو دوسرے مکار سے خطرہ ہے

اب درباریوں کو دربار سے خطرہ ہے

کس منہ سے دشمن کا گلہ کریں وہ لوگ

جن کو اپنے ہی سپہ سالار سے خطرہ ہے

کیسے رکھوں میں الزام سر چوروں کے

میرے آنگن کو اپنی دیوار سے خطرہ ہے

آج مجھ کو اس بات پر شرمندگی ہے

کہا تھا کبھی جو اغیار سے خطرہ ہے

جو گنتی میں نہ لاتے تھے تیر دشمن کا

انہیں اب اپنی ہی تلوار سے خطرہ ہے

کیوں کر اب جنگل کو جنگل لکھا جائے

جب آبادی کو شکار سے خطرہ ہے

ہم نہیں دیکھتے ہیں سوئے عُدو اب

ہمیں اب اندر کے وار سے خطرہ ہے

دن دیہاڑے ہو جاتے ہیں غائب یہاں

عوام کو اپنی ہی سرکار سے خطرہ ہے

بیچ دیتے ہیں ایمان چند سِکوں پر

تاریخ کو آج کے قلمکار سے خطرہ ہے

ایک جُھوٹ کرتا ہے دوسرے کی تائید

سچ کو اس اسرار سے خطرہ ہے

جب ہونے لگے اس کے نام پر سیاست

دین کو اپنے ہی پیروکار سے خطرہ ہے

میں اب نہ لکھوں گا خزاں کا نوحہ

میرے گلشن کو بہار سے خطرہ ہے

چھپ جائے جس میں حقیقت کا آسماں

حق کو ایسے گرد و غبار سے خطرہ ہے

کہاں جائیں تیرے سادہ لوح بندے مولا

بے اعتباری بھی غلط اعتبار سے خطرہ ہے

ہر بات پر جو کہ رہا ہے سب ٹھیک ہے

آفتاب مجھے اپنے اسی یار سے خطرہ ہے


آفتاب چکوالی

آفتاب احمد خان

No comments:

Post a Comment