ایک مکار کو دوسرے مکار سے خطرہ ہے
اب درباریوں کو دربار سے خطرہ ہے
کس منہ سے دشمن کا گلہ کریں وہ لوگ
جن کو اپنے ہی سپہ سالار سے خطرہ ہے
کیسے رکھوں میں الزام سر چوروں کے
میرے آنگن کو اپنی دیوار سے خطرہ ہے
آج مجھ کو اس بات پر شرمندگی ہے
کہا تھا کبھی جو اغیار سے خطرہ ہے
جو گنتی میں نہ لاتے تھے تیر دشمن کا
انہیں اب اپنی ہی تلوار سے خطرہ ہے
کیوں کر اب جنگل کو جنگل لکھا جائے
جب آبادی کو شکار سے خطرہ ہے
ہم نہیں دیکھتے ہیں سوئے عُدو اب
ہمیں اب اندر کے وار سے خطرہ ہے
دن دیہاڑے ہو جاتے ہیں غائب یہاں
عوام کو اپنی ہی سرکار سے خطرہ ہے
بیچ دیتے ہیں ایمان چند سِکوں پر
تاریخ کو آج کے قلمکار سے خطرہ ہے
ایک جُھوٹ کرتا ہے دوسرے کی تائید
سچ کو اس اسرار سے خطرہ ہے
جب ہونے لگے اس کے نام پر سیاست
دین کو اپنے ہی پیروکار سے خطرہ ہے
میں اب نہ لکھوں گا خزاں کا نوحہ
میرے گلشن کو بہار سے خطرہ ہے
چھپ جائے جس میں حقیقت کا آسماں
حق کو ایسے گرد و غبار سے خطرہ ہے
کہاں جائیں تیرے سادہ لوح بندے مولا
بے اعتباری بھی غلط اعتبار سے خطرہ ہے
ہر بات پر جو کہ رہا ہے سب ٹھیک ہے
آفتاب مجھے اپنے اسی یار سے خطرہ ہے
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment