نئی سحر ہے یہ لوگو! نیا سویرا ہے
طلوع ہو چکا سورج مگر اندھیرا ہے
خدا ہی جانے یہ دل کب خدا کا گھر ہو گا
ابھی تو اس میں بُتانِ ہوس کا ڈیرا ہے
ابھی نہ دے مجھے آواز اے غمِ جاناں
ابھی تو شہرِ وفا میں بڑا اندھیرا ہے
نہ سائبان نہ آنگن نہ چھت نہ روشندان
اور اس پہ سب سے لڑائی کہ گھر یہ میرا ہے
یہ دار و گیر کی دنیا میں کہنا مشکل ہے
کہ کون اس میں لُٹا، کون یاں لٹیرا ہے؟
یہ سارے جھگڑے ہیں بس ایک دوپہر کے لیے
کہ نور مہر نہ میرا ہے، اور نہ تیرا ہے
وفا! نثار ہو اس کی وفا شناسی پر
ہزار گردشوں کے بعد بھی جو میرا ہے
وفا ملک پوری
No comments:
Post a Comment