آنکھوں میں یاس کا جو یہ کاجل لگا گیا
کل رات وہ ہی خواب میں آیا، چلا گیا
روشن کتابِ دل کے تھے اوراق سب مگر
پھر بھی پڑھے بغیر وہ آگے چلا گیا
جب بھی لکھا ہے خونِ جگر کو نچوڑ کر
لفظوں کے دائروں میں سمندر سما گیا
میں منتظر تھا جس کا چراغاں کئے ہوئے
کب جانے آ کے چپکے سے مجھ کو سُلا گیا
تیرے خیال کے میں بھنور میں تھا یوں اسیر
نکلا تو خامشی کے سمندر میں آ گیا
جتنے وفا شعار تھے سب دیکھتے رہے
صوفی جو بے وفا تھا وہ رستہ دکھا گیا
صوفی بستوی
No comments:
Post a Comment