ملے اک بار ملنے کی کبھی رغبت نہیں جاتی
تکبر ہے مگر اتنا کہ بس نخوت نہیں جاتی
تساہل تو نہیں ہم کو قفس محبوب رکھتے ہیں
کہ اب مانوس ہیں صیاد سے چاہت نہیں جاتی
حسیں گیسو کے بل نے تو ہمارا بل نکالا ہے
تمہارے سرخ ہونٹوں کی کبھی لذت نہیں جاتی
تلاشِ حسنِ یکتا میں کٹی تھی زندگی اپنی
مِرے شوقِ جمالِ یار میں وحشت نہیں جاتی
اٹھا دو آج پردے کو ملا لو ہم سے بھی نظریں
مگر ماہِ لقا کی سنگ دل عادت نہیں جاتی
جہانِ رنگ و بو میں تو تمہارا حسن خواہش تھی
مِری تو کم نصیبی ہی کرے غارت نہیں جاتی
یہ رمزی! شاعری کی جانتا اب تک نہیں ابجد
مگر کیسے یہ لکھتا ہے مِری حیرت نہیں جاتی
معین لہوری رمزی
No comments:
Post a Comment