صفحات

Monday, 5 September 2022

احوال غم ذات سنانے سے رہا میں

 احوالِ غمِ ذات سنانے سے رہا میں

اب خود کو تماشا تو بنانے سے رہا میں

ہر بار میں تذلیلِ انا کر نہیں سکتا

ہر بار اسے جا کے منانے سے رہا میں

احسان کا مفہوم ہے آنکھیں نہ ملانا

احسان کسی کا بھی اٹھانے سے رہا میں

ممکن ہے کسی روز یہی اکسیر بنا دے

اس دل میں لگی آگ بجھانے سے رہا میں

جو زخم رفیقوں کے رویے سے لگے ہیں

وہ زخم کسی کو بھی دِکھانے سے رہا میں

دریا ہوں تو دریا ہی اسے پیش کروں گا

پیاسے کو، سمندر تو پلانے سے رہا میں


فیض عالم بابر

No comments:

Post a Comment