صفحات

Tuesday, 6 September 2022

تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے

 تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نظر میں ہے

دنیا ہمارے دیدۂ حسرت نگر میں ہے

ہاں جانتے ہیں جان کا خواہاں تمہیں کو ہم

معلوم ہے کہ تیغ تمہاری کمر میں ہے

کیا رشک ہے کہ ایک کا ہے ایک مدعی

تم دل میں ہو تو درد ہمارے جگر میں ہے

گو غیر کی بغل میں سہی وہ پری جمال

میں تو یہی کہوں گا کہ میری نظر میں ہے

دونوں نے دردِ عشق کو تقسیم کر لیا

تھوڑا سا دل میں ہے تو ذرا سا جگر میں ہے

میں بھی ہوں آج میں کہ بر آئی مرادِ دل

دل بھی ہے آج دل کہ وہ مہمان گھر میں ہے

ممنون ہوں خیال کا اپنے شبِ فراق

جو سامنے نظر کے نہیں وہ نظر میں ہے

دلبر ہو ایک تم کہ ہماری نظر میں ہو

دل ہے ہمارا دل کہ تمہاری نظر میں ہے

کہتے ہیں جس کو دل مِرے پہلو میں اب کہاں

ہے بھی تو پائمال کسی رہگزر میں ہے

دیکھو تو دیکھتے ہیں تمہیں کس نگاہ سے

حسرت ہے جس کا نام ہماری نظر میں ہے

جس پر پڑی پسیج گیا موم ہو گیا

ڈوبی ہوئی نگاہ ہماری اثر میں ہے

جچتا نہیں نگاہ میں کوئی حسیں بھی ہجر

جب سے کسی کی چاند سی صورت نظر میں ہے


ناظم علی ہجر

ناظم علی خاں ہجر

No comments:

Post a Comment