صفحات

Thursday, 1 September 2022

میں تو شاید ان پرندوں کے نام بھی بھول چکی

 بلا عنوان


میں تو شاید ان پرندوں کے نام بھی بھول چکی ہوں 

جو میرے کھلیانوں میں لگے اناج اور بھوسے کے ڈھیروں پر 

اٹکھیلیاں کرتے کرتے لوٹ پوٹ ہو جایا کرتے تھے

یا پھر چھتوں پر 

ایک دوسرے سے چونچ لڑاتے ہوئے نیچے آن گرتے

شاید وہ سب ہمیں تیاگ چکے ہیں 

لیکن 

موسم کے آخری حصے میں، میں تو 

کھیت میں جمی کھڑی ہوں

گلیاں سفید برّاق لبادے اوڑھے کس کی منتظر ہیں

دور سے آتی باس تو ان گلدستوں کی ہے جنہیں 

فراموش کر دیا گیا تھا

میرے وطن کی زمین پر 

ناموں کی ٹوٹی ہوئی تختیاں پڑی ہیں

اور جو لفظ بھی بوئے جا رہے ہیں 

وہ میرے لیے تو بالکل اجنبی ہیں


فطرت سوہان

No comments:

Post a Comment