صفحات

Monday, 3 November 2025

گا رہا ہوں حسرتوں کا ایک گیت

دھندلی سحر


گا رہا ہوں حسرتوں کا ایک گیت

اپنے دل کی دھڑکنوں کے ساز پر

عہدِ ماضی کے فسانوں کا خیال

عشرتِ رفتہ کے خوبیدہ گناہ

اور غمِ امروز کی یہ کشمکش

بن رہی ہے نغمۂ رنج و ملال

اف مِرے ماحول کی بے کیف رِیت

میرے مسقبل پہ شب گوں تیرگی

دھیرے دھیرے گا رہا ہمنشیں

دور تاریکی میں اک دھندلی سحر

دیکھ لیتی ہے نظر، میری نظر


صدیق کلیم 

No comments:

Post a Comment