دھندلی سحر
گا رہا ہوں حسرتوں کا ایک گیت
اپنے دل کی دھڑکنوں کے ساز پر
عہدِ ماضی کے فسانوں کا خیال
عشرتِ رفتہ کے خوبیدہ گناہ
اور غمِ امروز کی یہ کشمکش
بن رہی ہے نغمۂ رنج و ملال
اف مِرے ماحول کی بے کیف رِیت
میرے مسقبل پہ شب گوں تیرگی
دھیرے دھیرے گا رہا ہمنشیں
دور تاریکی میں اک دھندلی سحر
دیکھ لیتی ہے نظر، میری نظر
صدیق کلیم
No comments:
Post a Comment