صفحات

Thursday, 6 November 2025

اپنے رنج و غم بانٹے ہم سے با خبر نکلے

 اپنے رنج و غم بانٹے ہم سے با خبر نکلے

ساتھ چلنے والوں میں کوئی ہم سفر نکلے

بے سعادتی ٹھہرے خواہ اب ہنر نکلے

سب نے جس سے روکا تھا ہم وہ کام کر نکلے

اک عجیب سناٹا محو شعر خوانی تھا

ہم جہاں جہاں پہونچے ہم جدھر جدھر نکلے

منزلوں کے پیچھے بھی اور منزلیں ہوں گی

رہگزر سے آگے بھی کوئی رہگزر نکلے

ہم نے ان کو دیکھا ہے ہم نے ان کو پرکھا ہے

جتنے دیدہ ور نکلے خاصے کم نظر نکلے

کیا بھرے زمانے میں بس یہی نہیں ممکن

میں کہیں ٹھہر جاؤں کوئی میرا گھر نکلے

دوسروں نے کیا حیرت غم کو غم نہیں سمجھا

ہم مگر غلط نکلے اور کس قدر نکلے


بلراج حیرت

No comments:

Post a Comment