خنجر تِرے ہاتھوں میں سنبھل جائے تو اچھا
قاتل مِرا ارمان نکل جائے تو اچھا
مر جائیں گے پر دل نہ لگائیں گے کسی سے
جی اور کسی ڈھب سے بہل جائے تو اچھا
ہر روز وہ ڈھونڈے ہیں کوئی تازہ خریدار
صورت مِری ہر روز بدل جائے تو اچھا
آنے سے تِرے جان تو ٹھہری تھی کوئی دم
اک دم کے لیے جی بھی سنبھل جائے تو اچھا
تا حشر تِرے دام سے مشکل ہے رہائی
اس سودے کا مر کر بھی خلل جائے تو اچھا
مر کر بھی یہ کہتا ہوں کہ جو جی میں ہے میرے
اس دم کی طرح جی سے نکل جائے تو اچھا
ہر شعر صفائی میں ہے اس رخ کے برابر
تسکین وہاں یہ بھی غزل جائے تو اچھا
میر تسکین دہلوی
میر حسین
No comments:
Post a Comment