صفحات

Thursday, 6 November 2025

متاع عمر گزشتہ سمیٹ کر لے جا

 متاعِ عمرِ گزشتہ سمیٹ کر لے جا

جو ہو سکے تو مِرا درد اپنے گھر لے جا

تُو جا رہا ہے تو میری سسکتی آنکھوں سے

سلگتی شام پگھلتی ہوئی سحر لے جا

اچٹتی آنکھوں سے تہذیب کا سفر کیسا

تُو اپنے آپ کو تاریخ کے ادھر لے جا

حضور دوست اک آئینہ جگمگاتا ہے

تُو اپنی ذات کا پیکر تراش لے کر لے جا

سلگ رہی ہے تِری یاد میری رگ رگ میں

اب اپنی یاد مِرے دل سے چھین کر لے جا

اثر کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہنر کے سوا

تُو بے ہنر ہے تو سرمایۂ ہنر لے جا


محمد علی اثر

No comments:

Post a Comment