وحشی کی نظر سے روپوش رکھا ہے
صحیح وقت تک خود کو خاموش رکھا ہے
بہت سے خریدار ہیں صنم تیرے دل کے
کیا اپنا ہی نام دل فروش رکھا ہے؟
ہجر کے زخم سے ہوا اس قدر زخمی
کرم ہے رب کا کہ اب بھی ہوش رکھا ہے
کس نے خنجر چلایا کون خالی ہاتھ آیا
سب جانتا ہوں مگر نردوش رکھا ہے
گھن آتی ہے عارف حرام کی پائی پائی سے
حلال رزق کے لیے خاک پر آغوش رکھا ہے
عارف اصفہانی
No comments:
Post a Comment