صفحات

Thursday, 6 November 2025

وحشی کی نظر سے روپوش رکھا ہے

 وحشی کی نظر سے روپوش رکھا ہے

صحیح وقت تک خود کو خاموش رکھا ہے

بہت سے خریدار ہیں صنم تیرے دل کے

کیا اپنا ہی نام دل فروش رکھا ہے؟

ہجر کے زخم سے ہوا اس قدر زخمی

کرم ہے رب کا کہ اب بھی ہوش رکھا ہے

کس نے خنجر چلایا کون خالی ہاتھ آیا

سب جانتا ہوں مگر نردوش رکھا ہے

گھن آتی ہے عارف حرام کی پائی پائی سے

حلال رزق کے لیے خاک پر آغوش رکھا ہے


عارف اصفہانی

No comments:

Post a Comment