دل کو اک سانحہ سا لگتا ہے
کوچۂ یار سے "گزرنا" بھی
پاؤں رکھنا "پرانی" مٹی پر
سوکھے پتوں کا شور سننا بھی
جس پہ جھولا تھا اپنے بچپن کا
دھوپ دھندلا سکی نہ آنکھوں کو
خواب سیڑھی پہ پاؤں دھرنا بھی
شہر اب وہ نہیں، جو پہلے تھا
گر پڑو گے تو خود سنبھلنا بھی
گونج باقی ہے اپنے نغموں کی
سرسراتی ہوا کو "سننا" بھی
ایک جگنو چمک رہا ہے کہیں
گمشدہ راستوں میں "ملنا" بھی
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment