صفحات

Tuesday, 7 July 2020

خواب سیڑھی پہ پاؤں دھرنا بھی

دل کو اک سانحہ سا لگتا ہے
کوچۂ یار سے "گزرنا" بھی
پاؤں رکھنا "پرانی" مٹی پر
سوکھے پتوں کا شور سننا بھی
جس پہ جھولا تھا اپنے بچپن کا
اس گھنے پیڑ سے گزرنا بھی
دھوپ دھندلا سکی نہ آنکھوں کو
خواب سیڑھی پہ پاؤں دھرنا بھی
شہر اب وہ نہیں، جو پہلے تھا
گر پڑو گے تو خود سنبھلنا بھی
گونج باقی ہے اپنے نغموں کی
سرسراتی ہوا کو "سننا" بھی
ایک جگنو چمک رہا ہے کہیں
گمشدہ راستوں میں "ملنا" بھی

شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment