وہ مجھے درسِ عشق کا پورا نصاب دے گیا
آدھے ورق دریدہ تھے، ایسی کتاب دے گیا
دیکھیں گے اس کو روبرو تھی یہی ایک آرزو
ملنا جو دو گھڑی کا تھا، کتنے عذاب دے گیا
وہ جو تھے رشک دلبراں اب ہیں شریکِ امتحاں
آئینہ اک سوال ہے،۔ چہرہ جواب دے گیا
لمحے کی دیر کے سبب بچھڑا تھا جو کبھی وہ اب
کتنے برس کہاں رہا،۔ سارا حساب دے گیا
کیوں نہ ہو قحطِ اعتبار موسمِ گل بھی اب کی بار
شاخِ نہالِ سبز کو سُوکھے گلاب دے گیا
مجھ کو تو ڈوبنا ہی تھا، بچوں کا کھیل ہو گیا
گنتے ہیں سطحِ آب پر کتنے حباب دے گیا
تیرہ شبی کی ساعتیں دونوں نے مل کے بانٹ لیں
میں نے اسے دِیا دیا، وہ مجھے خواب دے گیا
روزِ حساب کیا ہوا، اطہرِ بے نوا ملا
میرے گناہ رکھ لیے، اپنے ثواب دے گیا
اطہر شاہ خاں جیدی
No comments:
Post a Comment