گھر کی دیوار پہ پھیلا ہوا جالا دیکھوں
لوٹ کر آؤں تو دروازے پہ تالا دیکھوں
کیا تجسس ہے کہ صفحات میں ڈھونڈوں خود کو
پھر بھی ہر سطر میں تیرا ہی حوالا دیکھوں
ایک تاریخ کے اوراق الٹتا جاؤں
ایک تہذیب کا عنصر تہ و بالا دیکھوں
اپنی پہچان کی خاطر میں وہاں جاؤں اور
آئینہ خانے میں اک عکس نرالا دیکھوں
تیرے جلوے کے لیے عمر گزاروں لیکن
دور سے چہرہ نما نور کا ہالا دیکھوں
گھٹ گئی ہے جو یہاں ذات کے پیراہن میں
شہرِ عرفاں میں وہی قدر دو بالا دیکھوں
غالب عرفان
No comments:
Post a Comment