Tuesday, 6 September 2022

گھر کی دیوار پہ پھیلا ہوا جالا دیکھوں

 گھر کی دیوار پہ پھیلا ہوا جالا دیکھوں

لوٹ کر آؤں تو دروازے پہ تالا دیکھوں

کیا تجسس ہے کہ صفحات میں ڈھونڈوں خود کو

پھر بھی ہر سطر میں تیرا ہی حوالا دیکھوں

ایک تاریخ کے اوراق الٹتا جاؤں

ایک تہذیب کا عنصر تہ و بالا دیکھوں

اپنی پہچان کی خاطر میں وہاں جاؤں اور

آئینہ خانے میں اک عکس نرالا دیکھوں

تیرے جلوے کے لیے عمر گزاروں لیکن

دور سے چہرہ نما نور کا ہالا دیکھوں

گھٹ گئی ہے جو یہاں ذات کے پیراہن میں

شہرِ عرفاں میں وہی قدر دو بالا دیکھوں


غالب عرفان

No comments:

Post a Comment