صفحات

Sunday, 4 September 2022

خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہو گا

 خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہو گا

شب کی اک ایک اذیت سے گزرنا ہو گا

وہ ہمارے ہی رگ و پے میں نہاں رہتا ہے

اس کی تصدیق تو اک دن ہمیں کرنا ہو گا

اپنے خاکستر تن کو لیے کوچہ کوچہ

کیا ہواؤں کی طرح مجھ کو گزرنا ہو گا

ہمیں احباب کی بے لوث رفاقت کے سبب

وقت آئے گا تو بے موت بھی مرنا ہو گا

ہوں گے صحراؤں کے سناٹے نظر کی حد میں

کوئی وادی نہ کوئی خواب نہ جھرنا ہو گا

آئینہ آئینہ خود ساری دشائیں ہوں گی

عکس در عکس مگر ہم کو ابھرنا ہو گا

چیختے خوابوں کی تعبیر یہی کہتی ہے

ہو گی ہڑتال کہیں تو کہیں دھرنا ہو گا


انور مینائی

No comments:

Post a Comment